آتی ہے گردوں سے | علی ضیاء رضوی | اردو تحریر

آتی ہے گردوں سے یہ پیہم صدا
قتل ہوئے سجدے میں شیرِ خدا
قانتِ حق میں یہ غضب ہو گیا
قتل ہوئے سجدے میں شیرِ خدا

 

غم سے ہے زینب نڈھال، کھول دیے سر کے بال
کہتی ہے یہ پُر ملال، دیکھو تو بابا کا حال
دیتے ہیں جبرائیل یہ کیسی ندا
قتل ہوئے سجدے میں شیرِ خدا
آتی ہے گردوں…

 

ساتھ پڑے جلوہ گر، کہتی ہے سر پیٹ کر
پھٹتا ہے میرا جگر، کوئی تو لائے خبر
گھر میں خدا کے یہ ستم کیا ہوا
قتل ہوئے سجدے میں شیرِ خدا
آتی ہے گردوں…

 

دیکھو تو حسنین جا، بابا کو گھر میں تو لاؤ
ایسا لگا سر پہ گھاؤ، مجھ کو خدارا بتاؤ
پوچھو تو جراح سے ہوگی شفا
قتل ہوئے سجدے میں شیرِ خدا
آتی ہے گردوں…

 

نشتَرِ غم دل پہ کھائے، دوڑ کر حسنین آئے
دیکھا عجب حال ہے، خون میں ہے بابا نہائے
فرش سے تا عرش ہے محشر بپا
قتل ہوئے سجدے میں شیرِ خدا
آتی ہے گردوں…

 

ہائے قیامت ہوئی، تیغِ ستم کی چلی
مارا علیِ ولی، گریہءِ روحِ نبی
کیسی لعیں نے یہ کی جور و جفا
قتل ہوئے سجدے میں شیرِ خدا
آتی ہے گردوں…

 

اے میرے زخمی امام، تم پہ درود و سلام
خوب کی تبلیغِ عام، دے دیا قاتل کو جام
ہوگا انیس ایسی کوئی پیشوا
قتل ہوئے سجدے میں شیرِ خدا
آتی ہے گردوں…

Stay Connected

Connect with Ustad Syed Ali Zia Rizvi

Title
.