زینبؑ یہ رو کے بولی بھیا نہ دل دکھاؤ
کیا دیر کا سبب ہے یہ تو ہمیں بتاؤ
مشکیزہ بھر کے جلدی دریا سے لوٹ آؤ
بچی کی تشنگی کو تم آ کے خود بجھاؤ
عباسؑ، عباسؑ، عباسؑ پانی لاؤ…
وہ غمزدہ یقیناً یادوں میں کھو گئی ہے
بابا کو روتے روتے خود تھک کے سو گئی ہے
یا تشنہ لب سکینہؑ بے ہوش ہو گئی ہے
پانی کا دے کے چھینٹا تم ہی اُسے جگاؤ
عباسؑ، عباسؑ، عباسؑ پانی…
ہاتھوں میں خالی کوزے بچے لیے ہوئے ہیں
گردِ سکینہؑ دیکھو حلقہ کیے ہوئے ہیں
بچے نہ جانے کب کا پانی پیے ہوئے ہیں
بِن آب مر نہ جائیں، پانی انہیں پلاؤ
عباسؑ، عباسؑ، عباسؑ پانی…
اس بےکسی پہ ہائے آتا ہے مجھ کو رونا
پُرہَول ہے اندھیرا اور خاک کا بچھونا
سینے پہ سونے والی کیا جانے ایسا سونا
پیاسی ہے، مضطرب ہے، آ کر اِسے سلاؤ
عباسؑ، عباسؑ، عباسؑ پانی…
کانوں میں العطش کی آواز آ رہی ہے
اور اُس پہ فوجِ اَعدا یہ ظلم ڈھا رہی ہے
ان کو دکھا دکھا کر پانی بہا رہی ہے
بچے ہیں شہؑ کے پیاسے، اعدا کو یہ بتاؤ
عباسؑ، عباسؑ، عباسؑ پانی…
الفت کی آگ دل میں پیہم لگی ہوئی ہے
روضہ تمہارا دیکھیں، یہ حسرتِ دِلی ہے
زائر بنیں تمہارے، یہ خواہشِ زکی ہے
آنکھوں کی تشنگی کو تم دید سے بجھاؤ
عباسؑ، عباسؑ، عباسؑ پانی لاؤ…