ننھے مجاہد رن میں جا کر تم نہیں آئے

ننھے مجاہد رن میں جا کر تم نہیں آئے
شاہ تو آئے جانِ مادر، تم نہیں آئے

 

کب سے کھڑی ہوں خیمے کے در پر
آنکھوں میں لے کر اشکوں کے ساگر
پیش کروں آجائے جو اصغرؑ، تم نہیں آئے
ننھے مجاہد رن میں جا کر، تم نہیں آئے

 

تم نے اشاروں میں یہ کہا تھا
دے دے رضا مقتل کی خُدارا
کر کے فتح میں آؤں گا لشکر، تم نہیں آئے

 

تیر لگا ہے کیا گردن پر
جو نہیں دیکھا ماں کو پلٹ کر
کون سی مجبوری تھی اصغرؑ، تم نہیں آئے

 

قتل ہوئے جو جور و جفا سے
شاہ اٹھا کر لائے وہ لاشے
آتے ہیں تنہا رَس سے سرورؑ، تم نہیں آئے

 

کس کو سناؤں گی میں کہانی
یہ بھی نہ سوچا یوسفِ ثانی
ماں سے کٹے گی رات یہ رو کر، تم نہیں آئے

 

رات اندھیری دشتِ بیاباں
ڈر نہیں جانا رن میں میری جان
کیسے رہو گے ماں سے بچھڑ کر، تم نہیں آئے

 

خالی جو جھولا پاؤں گی بیٹا
غم سے پھٹے گا میرا کلیجہ
رات بھی گزرے گی رو رو کر، تم نہیں آئے

 

کس نے انیسِ غم کو پکارا
سُنوا دو آواز مجھ کو دوبارہ
نوحہ یہی تھا بانو کے لب پر، تم نہیں آئے

رابطے میں رہیں

استاد سید علی زیا رضوی سے رابطہ کریں

Title
.