آنکھیں ترس گئی ہیں اکبرؑ کے دیکھنے کو
علی اکبرؑ، علی اکبرؑ
لیلٰی کے لب پہ ہر دم رہتا تھا ایک نالہ
وہ تھا تو اس کے دم سے گھر میں تھا ایک اُجالا
آنکھیں ترس گئی ہیں اکبرؑ کے دیکھنے کو
علی اکبرؑ، علی اکبرؑ
اَٹ جائیں گے وہ گیسو سب خاک میں، لہو میں
یہ دن بھی دیکھنا تھے، صحرا کی آرزو میں
آنکھیں ترس گئی ہیں اکبرؑ کے دیکھنے کو
علی اکبرؑ، علی اکبرؑ
پھر عید آئی، سب نے پہنے نئے لبادے
آئے نہیں پلٹ کر اُمّت کے شہزادے
آنکھیں ترس گئی ہیں اکبرؑ کے دیکھنے کو
علی اکبرؑ، علی اکبرؑ
خورشید سا وہ چہرہ رنگت میں تھا سنہرا
پلکوں کی چلمنوں پر تھا ابروؤں کا پہرہ
آنکھیں ترس گئی ہیں اکبرؑ کے دیکھنے کو
علی اکبرؑ، علی اکبرؑ
سنتے ہیں اُس کا چہرہ سب خون میں بھر گیا تھا
کہتے ہیں اُس کے دل میں نیزہ اُتر گیا تھا
آنکھیں ترس گئی ہیں اکبرؑ کے دیکھنے کو
علی اکبرؑ، علی اکبرؑ
زینبؑ سے ہو کے رخصت جب رن کو وہ چلا تھا
ہر کوئی بڑھ کے اُس کے ماتھے کو چومتا تھا
آنکھیں ترس گئی ہیں اکبرؑ کے دیکھنے کو
علی اکبرؑ، علی اکبرؑ