عباس کہاں ہو | علی زیا رضوی و علی رضا رضوی (فرزند سچے بھائی) | محرم 1446ھ / 2024 اردو تحریر

سر کٹ گیا جب دشت میں زہراؑ کے پسر کا
ہلتی تھی زمیں، کانپتا تھا عرشِ معلّیٰ
سرخ آندھی چلی، خون اُگلنے لگا صحرا
وحشت کا یہ عالم تھا کہ ہلتا تھا کلیجہ
تھی ایک قیامت سرِ مقتل جو بپا تھی
گونجی ہوئی صحرا میں فقط ایک صدا تھی
عباسؑ کہاں ہو، آ جاؤ جہاں ہو

 

سینے پہ سِنا کھا چکے، اکبرؑ گئے مارے
خالی ہوا جھولا، علی اصغرؑ گئے مارے
تنہا ہوئی سَیّدنیاں، سرورؑ گئے مارے
زینبؑ ہے پریشان، چلے آؤ جہاں ہو
عباسؑ کہاں ہو…

 

ناموسِ پیمبرؐ کو بڑی آس تھی تم سے
کیا ایسی بھلا بھائی خطا ہو گئی ہم سے
پھٹ جائے کلیجہ کہیں زینبؑ کا نہ غم سے
کیوں روٹھے ہو، کس واسطے نظروں سے نہاں ہو
عباسؑ کہاں ہو…

 

اس دشتِ مصیبت میں کہاں کھو گئے بھائی
نیزے کی انی آیہ تطہیرؑ تک آئی
آ جاؤ ذرا چھوڑ کے دریا کی تراہی
چادر سرِ زینبؑ سے اُترتی ہے، کہاں ہو
عباسؑ کہاں ہو…

 

یہ اہلِ ستم اور قیامت نہ مچادے
سب لوٹ کے اسبابِ حرم آگ لگادے
ڈر ہے کہیں بیمار کا خیمہ نہ جلادے
پھر چار طرف صرف دھواں، صرف دھواں ہو
عباسؑ کہاں ہو…

 

دھانوں پہ ستم اور ستمگر تُلے ہیں
تلواریں لیے سب درِ خیمہ پہ کھڑے ہیں
مردوں میں فقط عابدؑ بیمار بچے ہیں
خنجر کہیں عابدؑ کے گلے پر نہ رواں ہو
عباسؑ کہاں ہو…

 

بچہ کوئی روتا ہے اُدھر تاپو میں آکے
بچی کوئی روتی ہے اِدھر کھا کے تمانچے
لاؤں تو بھلا لاؤں زباں ایسی کہاں سے
الفاظ نہیں حال جو بچوں کا بیاں ہو
عباسؑ کہاں ہو…

رابطے میں رہیں

استاد سید علی زیا رضوی سے رابطہ کریں

Title
.