نالہ بہ لبِ زینبِؑ لاچار، حُسیناؑ
موجود ہیں احباب نہ انصار، حُسیناؑ
نالہ بہ لب…
ہے چاروں طرف نرغۂ کفّار، حُسیناؑ
نالہ بہ لب…
فریاد، نہیں کوئی مددگار، حُسیناؑ
نالہ بہ لب…
اب کوئی نہیں، سب ماہِ انور گئے مارے
ساتھ آئے تھے جتنے وہ دل آور گئے مارے
ہم شکلِ محمدؐ، علی اکبرؑ گئے مارے
سویا ہے لبِ نہر، علمدار، حُسیناؑ
نالہ بہ لبِ زینبؑ…
موجود ہیں احباب نہ انصار، حُسیناؑ
نالہ بہ لب…
جو مر گئے، اُن پر بھی عجب ظلم و جفا ہے
یا دھوپ ہے، یا خاک، یا مقتل کی ہوا ہے
مظلوموں کی لاشوں پہ نہ سایہ، نہ رِدا ہے
وا حسرتا! آلامِ گراں بار، حُسیناؑ
نالہ بہ لب…
موجود ہیں احباب نہ انصار، حُسیناؑ
نالہ بہ لب…
دل جلتا ہے، آنکھوں میں ہے برسات کا موسم
ہے چاروں طرف پھیلا ہوا سلسلۂ غم
جلتے ہوئے خیموں سے صدا آتی ہے پیہم
ہے فوجِ سِتم، در پۂ آزار، حُسیناؑ
نالہ بہ لب…
موجود ہیں احباب نہ انصار، حُسیناؑ
نالہ بہ لب…
یہ ساعتِ انبوہِ گراں، شامِ غریباں
اور سہمے ہوئے اہلِ حرم، درد بہ دامن
زخموں پہ نمک پاشی کا ہونے لگا سامان
اب کوئی نہیں، مونس و غمخوار، حُسیناؑ
نالہ بہ لب…
موجود ہیں احباب نہ انصار، حُسیناؑ
نالہ بہ لبِ زینبؑ…
خیمے جلے، اسباب لُٹا، چھن چکی چادر
اور ایسے میں بچوں کو لیے زینبِؑ مضطر
آ بیٹھی بسد کرب، سرِ فرشِ زمیں پر
ہیں خاک نشیں عترتِ اطہار، حُسیناؑ
نالہ بہ لب…
موجود ہیں احباب نہ انصار، حُسیناؑ
نالہ بہ لب…
کیا عزم تھا، غربت میں بھی اے ثانیٔ زہراؑ
بچوں کو سنبھالا، کبھی بیواؤں کو دیکھا
سجادؑ کو، باقرؑ کو، سکینہؑ کو سُلایا
موجود ہیں نہ اکبرؑ، نہ علمدار، حُسیناؑ
نالہ بہ لب…
موجود ہیں احباب نہ انصار، حُسیناؑ
نالہ بہ لبِ زینبؑ…
تھی پہرہ پہ موجود، لیے ٹوٹا سا نیزہ
مقتل کی طرف دیکھا، تو کہنے لگی دُکھیّا
کچھ میری بھی حالت کی خبر ہے میرے بھیا؟
بے وارثوں کے قافلہ سالار، حُسیناؑ
نالہ بہ لب…
نالہ بہ لبِ زینبِؑ لاچار، حُسیناؑ